Tuesday, 18 April 2017

idreeskhan



idreeskhan


idreeskhan



Saturday, 26 April 2014

Face Reader Pakistani Police.

World Best Face Reader
Pakistani Police


Add caption

 Pakistani Police World Best Face Reader.

1. Face Reading is an excellent tool for investigative policing. Pakistani  policeman catch  a any  Criminal after do the crime .then come on police station. Criminal Step up police station gate
 change face expressions. and this time police detective looking criminal face and then detective
 80 % sure this is  do this. then investigate .

2. Criminal in  police station police detective Taking the Criminal  sit down the outside.

      and then detective and other policeman  talking about city crimes and  criminal                sentence. 

      criminal Listening  this Conversation and Fear of punishment is seen on her                      face.and detective  Read the face.

3. Pakistani police  40 %   Crime Scene Investigation . Evidence , Scene                                     Sketch, Conduct a 
Detailed Search 

      Record and Collect Physical Evidence , Prepare a Narrative of   the Scene.

   Pakistani Police  60 %   Investigation in criminal remand and criminal Face reading.


     I think I never hide the any  crime to police .but your police honestly work.







Tuesday, 17 December 2013



         رسبری پائیپچیس ڈالر کا انقلابی کمپیوٹر  


                                                                                                                                                                                                                                                                           یہ بات ہے 2006ء کی جب کیمبرج یونی ورسٹی ، برطانیہ میں پی ایچ ڈی کرنے والے ’’ایبن اپٹون (Eben Epton )‘‘ اور ان کے ساتھیوں کو اندازہ ہوا کہ ہر سال A لیول کے امتحانات میں کمپیوٹر سائنس منتخب کرنے والے طلبہ کی تعداد کم ہوتی جارہی ہے اور جو طلبہ یہ کورس پڑھنا چاہتے ہیں ان کی صلاحیتیں زیادہ سے زیادہ ویب ڈیزائننگ تک محدود تھیں۔ یہ صورت حال پچھلی دہائی سے بہت مختلف تھی۔ اس وقت طلبہ کی ایک بڑی تعداد کمپیوٹر سائنس پڑھنا چاہتی تھی اور بیشتر طلبہ پہلے ہی کمپیوٹر پروگرامنگ سے واقف ہوتے تھے۔
ایبن اپٹون نے اس صورت حال کا تجزیہ کرکے نتیجہ اخذ کیا کہ طلبہ کی عدم دلچسپی کی وجوہات میں نصابی کتب کا ورڈ، ایکسل اور ویب ڈیزائننگ تک محدود ہوجانا، ڈاٹ کام بوم کا لرزاں خیز اختتام، گھریلیو کمپیوٹرز اور گیمنگ کنسولز کا عام ہوجانا شامل ہیں۔ طلبہ کی گزشتہ نسل Amigas ، BBC Micros ، Spectrum ZX اور Commodore64 جیسی مشینوں پر پروگرامنگ کرنا سیکھتی رہی جبکہ نئی نسل کے لئے ان سے کہیں زیادہ جدید کمپیوٹرز دستیاب ہوگئے تھے۔
یہ جدید کمپیوٹرز استعمال میں آسان تھے اور اسی آسانی کی وجہ ان کی بیشتر اہم و تکنیکی چیزیں ڈبے میں بند اور نظروں سے اوجھل رہتی تھیں۔ اپٹون کے مطابق ’’والدین نہیں چاہتے تھے کہ ان کے بچے ان مہنگے کمپیوٹرز کو کھول کھال کر تجربات کی بھینٹ چڑھا دیں۔ لیکن اگر ان بچوں کو سستا کمپیوٹر فراہم کردیا جائے جس سے یہ ’’کھیل‘‘ سکیں اور اس پر نت نئے تجربات کرسکیں تو بنیادی کمپیوٹر سائنس کو ایک بار پھر دلچسپ بنایا جاسکتا ہے‘‘۔
اسی پیش نظر، اپٹون نے ایک سستا کمپیوٹر تیار کرنا شروع کردیا جس کی قیمت چند ڈالر سے زائد نہ ہو۔ 2006 ء اور 2008ء کے درمیان اپٹون نے چند کمپیوٹرز کے ڈیزائن تیار کئے۔ انہوں نے پہلا کمپیوٹر ویرو بورڈ (veroboard) پر اسمبل کیا۔ یہ کمپیوٹر Atmel ATMega644 مائیکرو کنٹرول جس کی رفتار 22.1 میگا ہرٹز تھی، اور 512کلو بائٹس کی SRAM پر مبنی تھا۔یہ ایک انقلابی کمپیوٹر بنانے کا آغاز تھا جسے بعد میں دنیا نے ’’ رسبری پائی ‘‘ (Raspberry Pi ) کا نام سے جاننا تھا۔ 2008ء میں موبائل فونز کے لئے تیار کئے گئے پروسیسر خاصے سستے ہو چکے تھے اور ان کی پروسیسنگ پاور بھی بہت بڑھ چکی تھی۔ یہ اتنے طاقتور ہوچکے تھے کہ زبردست ایچ ڈی کوالٹی ملٹی میڈیا فراہم کرسکیں۔ اب اپٹون کو اپنے خواب حقیقت کا روپ دھارتا نظر آرہا تھا۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں Rob، Jack ، Alan، David Braden اور Pete Lomas کے ساتھ مل کر رسبری پائی فائونڈیشن کی بنیاد رکھی۔

رسبری پائی

رسبری پائی کریڈٹ کارڈ سائز کا ایک مکمل سنگل بورڈ کمپیوٹر ہے۔ اس کا پہلا الفا ورژن اگست 2011ء میں تیار کیا تھا۔ لیکن یہ اس وقت قابل فروخت حالت میں نہیں تھا۔ مئی 2011ء میں پہلی بار اسے بی بی سی کے ایک پروگرام میں منظر عام پر لایا گیا۔ اس ویڈیو کو چھ لاکھ سے زائد لوگوں نے ملاحظہ کیا۔ اپٹون کو اگرچہ یقین تھا کہ بچے اب بھی کوڈنگ میں دلچسپی رکھتے ہیں لیکن وہ پھر بھی رسبری پائی کو منظر عام پر لانے سے ہچکچا رہے تھے۔ ایک ایسی دنیا میں جہاں بچے اور نوجوانوںکی دلچسپی کا محور سوشل نیٹ ورکس اور اسمارٹ فونز بن گئے ہیں، شاید اپٹون کا خیال غلط بھی ثابت ہوسکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اپٹون لانچ سے پہلے رسبری پائی کو ایک اسکول لے گئے اور ان کی خوشی کی اس وقت انتہاء نہ رہی جب بچے رسبری پائی کو کام کرتا دیکھ کر اس کے دیوانے ہوگئے!
اگلے کئی ماہ تک اس پر بہتری کا کام جاری رہا۔ لوگوں کی دلچسپی اس پروجیکٹ میں بہت بڑھ چکی تھی اور انٹرنیٹ پر اسی کمپیوٹر کا چرچا تھا۔ 2012ء کے پہلے ہفتے میں رسبری پائی کے 10 بورڈ ای بے پر نیلامی کے لئے پیش کئے گئے۔ ان 10 بورڈز کی مجموعی قیمت تقریباً 220 پائونڈ بنتی تھی لیکن ای بے پر یہ 16000 پائونڈ میں فروخت ہوئے۔ فروری 2012ء میں پہلے رسبری پائی کی فروخت شروع ہونی تھی اور رسبری پائی فائونڈیشن کی ویب سائٹ پر اتنا رش لگ گیا کہ ان کے ویب سرورز کے لئے صارفین کو ویب سائٹ دکھانا مشکل ہوگیا۔
رسبری پائی کا پہلا ورژن جیسے ماڈل B کا نام دیا گیا ہے، چین اور تائیوان میں تیار کیا گیا۔ رسبری پائی فائونڈیشن بذات خود برطانوی فائونڈیشن ہے لیکن انہوں نے اس کی قیمت کم رکھنے کے لئے چین اور تائیوان میں اس کی تیاری کو ترجیح دی۔

پہلا ورژن کے 10 ہزار یونٹس تیار کئے گئے۔ ان کی ابتدائی فروخت 29 فروری 2012ء میں شروع ہوئی اور چند ہی گھنٹوں میں یہ سب فروخت ہوگئے!
رسبری پائی فائونڈیشن نے رسبری پائی کی فروخت کی ذمہ داری پریمئر فرنل اور آر ایس کمپونینٹس نامی برطانوی کمپنیوں کو دی۔ لانچ کے چند ہی منٹوں میں ان دونوں کمپنیوں کی ویب سائٹس زبردست ویب ٹریفک کی وجہ سے بیٹھ گئیں!

لوگوں کی جوش و خروش کا یہ عالم تھا کہ پریمیئر فرنل کا کوٹہ چند ہی منٹوں میں فروخت ہوگیا اور آر ایس کمپونینٹس کو لانچ کے پہلے ہی دن ایک لاکھ آرڈرز موصول ہوئے۔ اپٹون کے مطابق ’’ایمانداری سے ہمیں ایک ہزار یونٹ یا زیادہ سے زیادہ دس ہزار یونٹ کی فروخت کی امید تھی۔ ہمارے نے سوچا تھا کہ تھوڑی تعداد میں انہیں بنائیں گے اور ان لوگوں کو دیں گے جو کیمبرج یونی ورسٹی میں کمپیوٹر سائنس پڑھنے آئیں گے‘‘۔
ماڈل B کی قیمت 35 ڈالر ہے۔ اس میں Broadcom BCM 2835  سسٹم آن چپ (SoC)استعمال کی گئی ہے۔ اس چپ میں سی پی یو، جی پی یو، ڈی ایس پی اور ایس ڈی ریم شامل ہیں۔ سی پی یو ARM11 فیملی سے تعلق رکھتا ہے۔ یہ وہی فیملی ہے جس کے پروسیسر آئی فون تھری جی اور سام سنگ گلیکسی سیریز کے کئی موبائل فونز میں استعمال ہوتے ہیں۔ اس کے سی پی یو کی رفتار 700 میگا ہرٹز ہے جسے اوور کلاک بھی کیا جاسکتا ہے۔ بلکہ ایسا کرنے کے لئے صارفین کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اس کا مقصد کمپیوٹر سائنس کی ترویج ہے۔ اوور کلاکنگ ایک زمانے میں بڑی دلچسپی کی حامل تھی اور شوقین لوگ بہت محنت سے مختلف پروسیسرز کو اوور کلاک کیا کرتے تھے۔ تاہم اب یہ شوق خاصا محدود ہوگیا ہے۔
گرافکس پروسیسنگ یونٹ Broadcom VideoCore IV پر مبنی ہے جو 1080p کی ہائی ڈیفی نیشن ویڈیو آئوٹ پٹ دے سکتا ہے۔ جبکہ میموری 512 میگا بائٹس ہے جسے جی پی یو کے ساتھ مل بانٹ کر استعمال کیا جاتا ہے۔

ماڈل B میں دو یو ایس بی پورٹس اور ایک ایتھر نیٹ پورٹ بھی موجود ہے۔ ویڈیو آئوٹ پٹ کے لئے HDMI کی سہولت بھی دستیاب ہے اور آڈیو کے لئے 3.5 ملی میٹر کا جیک موجود ہے۔ آن بورڈ اسٹوریج کے لئے SD/MMC/SDIO کارڈ سلاٹ موجود ہے۔ اس ماڈل کا مجموعی وزن 45 گرام ہے۔
اس پر چلانے کے لئے لینکس کے کئی ورژن دستیاب ہیں جن میں Debian، فیڈورا، فری بی ایس ڈی، Arch Linux ARM اور Raspbian OS وغیرہ شامل ہیں۔ ان آپریٹنگ سسٹمز میں وہ تمام بنیادی ٹولز پہلے سے موجود ہیں جو پروگرامنگ کے لئے ضروری ہیں۔

اس پر اینڈروئیڈ بھی چلایا جاسکتا ہے لیکن یہ زیادہ مستحکم نہیں۔ رسبری پائی فائونڈیشن اینڈروئیڈ میں تبدیلی کرکے اسے بہتر طور پر چلنے کے قابل بنا رہی ہے۔
رسبری پائی پر ہر وہ آپریٹنگ سسٹم چلایا جاسکتا ہے جو ARMپروسیسر آرکیٹیکچر کو سپورٹ کرتا ہو۔ تاہم ہر آپریٹنگ سسٹم کی چند اپنی ضروریات بھی ہوسکتی ہیں جنھیں پورا کرنے سے رسبری پائی قاصر ہو۔ مثلاً ونڈوز کا ARM ورژن ۔

رسبرپائی فائونڈیشن کے مطابق 22 مئی 2012ء تک بیس ہزار یونٹس صارفین کو بھیجے جاچکے تھے۔ اس کا نتیجہ بھی ظاہر ہونا شروع ہوگیا جب انٹرنیٹ پر رسبری پائی کے ذریعے نت نئے اور انوکھے پروجیکٹس کی دھوم مچ گئی۔ 16 جولائی 2012ء تک رسبری پائی کے چار ہزار یونٹس فی دن بنائے جانے لگے جو اس پروجیکٹ کی مقبولیت کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ گوگل بھی پیچھے نہ رہا۔ اس نے بھی پندرہ ہزار رسبری پائی خرید کر برطانوی اسکولوں میں پڑھنے والے طلبہ میں تقسیم کئے۔ جنوری 2013ء تک ماڈل B کے ایک لاکھ یونٹس فروخت ہوچکے تھے۔ گزشتہ سال ماہ ستمبر میں رسبری پائی فائونڈیشن نے اس کی تیاری چین کے بجائے برطانیہ میں منتقل کردی۔ اس کے لئے Wales میں سونی کی ایک فیکٹری کا انتخاب کیا گیا جہاں آج کل رسبری پائی کمپیوٹر تیار کیا جاتا ہے۔
رسبری پائی فائونڈیشن اس ننھے کمپیوٹر کو مزید سستا کرنا چاہتی تھی۔ 35 ڈالر کے بجائے صرف 25 ڈالر! اس کے لئے ماڈل A تیار کرنا تھا۔ ماڈل A اور ماڈل B میں سب سے بڑا فرق ایتھر نیٹ پورٹ کا ہے۔ اس کے علاوہ اس میں صرف ایک یو ایس بی پورٹ ہے اور ریم بھی کم کرکے 256 میگا بائٹس کردی گئی ہے۔ ایتھرنیٹ پورٹ کی غیر موجودگی کا مطلب یہ نہیں کہ اسے نیٹ ورک سے نہیں جوڑا جاسکتا۔ بلکہ external ایتھرنیٹ ڈیوائس اس کے ساتھ بہ آسانی منسلک کی جاسکتی ہے۔
ماڈل A کو گزشتہ ماہ یعنی فروری میں فروخت کے لئے پیش کیا گیا۔ فی الحال صرف یورپی صارفین اسے خرید سکتے ہیں لیکن یورپ سے باہر رہنے والے صارفین اپنا آرڈر بک کروا سکتے ہیں تاکہ جیسے ہی اس کی دستیابی ممکن ہو، انہیں فوراً        رسبری پائی بھجوایا جاسکے۔







Tuesday, 30 July 2013

GOOGLE GLASS



کمپیوٹر کی دنیا میں تہلکہ مچانے کی تیاری